مولاناالطاف حسین حالیؔ نے کہا :
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
عمل کی بنیاد پر ہی انسانی زندگی کندن بنتی ہے ۔ بد اعمالی سے تباہی و بربادی اُس کا مقدر بن جاتی ہے ۔ خیر اور شر دوونوں ہی انسان کی سرشت میں شامل ہیں۔ عصر حاضر میں کئی ایک سماجی برائیاں نسل انسانی کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ ان سماجی برائیوں میں سر فہرست جس نے نسل انسانی کو نقصان پہنچایا ہے وہ کرپشن کا ناسور ہے۔ کرپشن کو ام الخبائث کہا جاسکتا ہے، کیونکہ بے بہا برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے جو معاشرے کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کردیتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا ہے، یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو گی، وہ قوم اتنی ہی جلدبربادی کے گڑھے میں جاگرتی ہے، اگر کسی قوم کے رگ وپے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی شناخت وساخت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں تھا ۔کرپشن کینسر کی مانند خطرناک اور سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے، جس معاشرے کو لگ جائے اس معاشرے کی بربادی یقینی سمجھیں۔ کرپشن معاشرے میں ایک اچھوت مرض کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہے، جس طرح آکاس کی زرد بیل درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے، اسی طرح اگر ایک بار کرپشن کسی صحت مند و توانا معاشرے پر آگرے تو ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو جکڑتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ ہر چیز زرد ہو جاتی ہے اور آباد اور کامیاب اداروں میں کچھ عرصے بعد الو بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔
بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ نبی کریم فرماتے ہیں ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو حاصل کیا ہے ، وہ حلال ہے یا حرام سے حاصل ہوا ہے“
انسان خطا کا پتلا ہے۔ زندگی کے حقیقی عنوان سے بھٹکنے والے بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں۔ کرپشن کا یہ راستہ کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا ۔ وسعتِ کائنات کی طرح یہ بھی دائرہ در دائرہ اپنا جال بچھاتے ہیں۔ بدعنوانی ایک جال ہے جس میں لالچ ، طمع، حرص، جھوٹ،مکاری ، فریب اور خود نمائی کے خوش نما نگینے جَڑے ہیں۔کم فہمی اور خود فریبی کے شکار لوگ ،ان جھوٹے نِگوں کی چمک سے اپنی حقیقت فراموش کر جاتے ہیں۔اُن کی آنکھیں چندھیاجاتی ہیں۔اُنھیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرتاہے ۔اپنے ماحول اور معاشرے کا حق مارتاہے ۔ وہ خود کو دوسروں سے بالا تر رتبے کا خواہاں ہوجاتاہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بدعنوانی کا راستہ اختیار کرتاہے ۔اپنی حیثیت سے بالا تر ہو کر لوٹ مار ، قتل و غارت ،ڈاکہ زنی ، چوری ، رشوت اور اپنے اختیار ات کے ناجائز استعمال سے وہ چند روزہ زندگی کو اُلجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر لیتاہے ۔
مملکت خدادِ پاکستان جو مذہب کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے بارے میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تازہ عالمی سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن سرکاری محکموں اور اسکے بعد عدلیہ میں ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان168 ممالک میں50کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہے۔ سارک ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے2014ءکے مقابلے میں2015ءمیں کرپشن میں زیادہ ترقی کی ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اورکرپشن ہے۔
پاکستان کرپشن کی دلدل میں گھرا ہوا ہے ۔ اعلیٰ درجہ کے سیاست دان کسی نہ کسی طور کرپشن کی زد میں ہیں۔ 2016ء ’’پانامہ لیکس‘‘ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔ میڈیا ، جلسے جلوس اور اخبارات و جرائد نے شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ ہم کرپشن کی کن حدود کو چھو چکے ہیں۔ محکمہ انسدادِ رشوت ستانی نے اپنے دائرہ کار کے مطابق کرپشن کے سامنے بند باندھنے کی بھرپور کوشش کی ہے ۔
عصرِ حاضر میں پاکستان کی ترقی بدعنوانی کی وجہ سے متاثر ہورہی ہے ۔ بدعنوان عناصرپاکستان کی تعلیم ، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔ پاکستان کی ۶۰ فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔صاف پانی ، طبی سہولتوں ، تعلیمی سرگرمیوں ،بجلی، گیس اور اسی قسم کی لازمی ضروریات سے محروم یہ طبقہ گداگری اور دیگر سٹریٹ کرائمز میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ کریں۔ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ محبِ وطن طبقہ بدعنوانی سے پاک پاکستان کا خواب دیکھ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ہم سب ایک ہیں۔ مقاصد کے حصول کے لیے ایمان داری، محنت ، حب الوطنی اور خلوصِ نیت بہت ضروری ہے ۔ سماجی انصاف کا راستہ بدعنوانی کے خاتمہ سے ہی ممکن ہے ۔ پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے اخلاقی اقدار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
پاکستانی صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی دوسری قوم سے کمتر نہیں ہیں۔ ہمیں پاکستان کو خوش حال اور فعال ملک بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔دہشت گردی کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ کرپشن سے ہے ۔چند لوگ کرپشن کے بل بوتے پر راتوں رات امیر ہونے کے خواب پورے کرنا چاہتے ہیں۔ باکردار قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ پاکستان کو مستحکم ملک بنانے کے لیے ہمہ وقت محنت کرنی چاہیے ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنے کے لیے ایمان داری اور دیانت داری کا مظاہرہ کریں۔ قوم کے ہر فرد کو تنظیم ، اتحاد ، وقت کی پابندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے ہمیں ضبطِ نفس اور حسنِ اخلاق کو اپنی خوبی بنانی چاہیے ۔ بلند کردار سے ہی انسان باوقار بنتاہے ۔ مسلمانوں کی اعلیٰ خوبیوں کو غیر قوموں نے اپنا کر عروج حاصل کر لیا ہے ۔ ہم انسانی اقدار کو فراموش کر رہے ہیں۔ اہلِ وطن کو ماضی کاحسن کشید کر کے اپنے حال کو بہتر بنانا چاہیے۔
کرپشن نے ہمارے ملک کواس انداز سے نقصان پہنچایا ہے جس طرح دیمک مضبوط ترین لکڑی کو بھی کھا جاتی ہے ۔ لالچ اور ہوس نے پاکستانیوں کو امیر اور پاکستان کو غریب کر دیا ہے ۔ فلک بوس کوٹھیاں ، قیمتی ترین گاڑیاں ، شادی بیاہ کی تقریبات میں شہ خرچیاں کس طرح ممکن ہوسکتی ہیں۔ اِن کے پس منظر میں کرپشن کے حاصل کردہ مال کارفرما ہے ۔ چہرے پہ چہرہ چڑھا ہے ، کرپشن کا مال تلاش کرنے کے لیے کوئی آلہ ٰ نظر نہیں آتا ۔ کالا دھندہ کرنے والوں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔
کسی برائی کے خلاف جد وجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کے ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ اخلاقی اقدار اور جذبۂ دردِ دل ایسے خزینے ہیں جو کسی بھی قوم کو قابلِ احترام بناتے ہیں۔بد عنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ کوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے۔
کرپشن کے خاتمے کےلیے جب تک معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا انفرادی کردار ادا نہیں کرے گا کرپشن کا علاج ممکن نہیں۔ محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے ساتھ قدم بہ قدم تعاون کی ضرورت ہے ۔ یہ امر ایک جہاد ہے ۔اس سماجی برائی کے خاتمے کے لیے خاص کر اساتذۂ کرام کے علاوہ ، علمائے کرام اور میڈیا کا فرض عین ہے کہ وہ معاشرے میں موجود کرپشن کی حقیقت کو بے نقاب کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل اقدامات اُٹھانے از حد ضروری ہیں۔
ملک کا سیاسی نظام بتدریج تبدیل کیا جا ئے تاکہ عوام کے مسائل مثلاًسستا انصاف مہیاکرنے اور کرپشن فری معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوسکے۔
- احتساب کا موثر نظام رائج کیا جا ئے جس کے تحت ہر شخص اور ادارہ جوابدہ ہو۔ موجودہ قومی احتساب بیورو
(National Accountability Bureau) کو مزید فعال بنا کر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔
- ملازمتوں میں سیاسی مداخلت ختم کرکے اہلیت کا اصول اپنا یا جا ئے۔
- قومی اداروں کو سیاست سے پاک کرکے عوام دوست ماحول بنا یا جا ئے۔
- میڈیا کے ذریعے عوام میں رشوت اور بدعنوانی کی متعلق آگاہی اور شعور اجاگر کیا جا ئے۔
- لوگوں کو اسلامی تعلیم کے حوالے سے معاشرے میں موجود رشوت اور بدعنوانی کی خرابیاں اور حلال اور حرام کے اصول بتا ئے جائیں۔
- سائنسی ایجادات کو روز مرہ کے کاموں میں استعمال میں لاویں تو کسی حدتک کرپشن کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مختصر یہ کہ اگر ہم کرپشن کے ناسور سے صحیح معنوں میں چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی نظام حیات اپنانا ہوگا۔ یہی وہ مکمل نظام ہے جس میں ہر مسئلے کا حل ہے۔ جس میں اُخوت اور بھائی چارے کا درس ہے۔ جس میں ایک دوسرے کی پاسداری کا سبق ہے۔ جس میں حلال و حرام کی تمیز ہے۔ جس میں دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت ہے۔ الغرض جذبہ اسلامی کو اپنانا ہوگا کہ خدا کا قانون ہی تمام مسائل کا حل ہے۔